قرطبہ (Córdoba) جنوبی سپین میں اندلس کا ایک اہم شہر اور صوبہ قرطبہ کا دارالحکومت ہے۔ یہ سیویلا اور ملاگا کے بعد اندلس کی تیسری سب سے زیادہ آبادی والی اور ملک میں مجموعی طور پر 11ویں میونسپلٹی ہے۔ یہ دریائے گوادلکوور کے دائیں کنارے پر واقع ایک رومی بستی تھی، جسے Visigoths نے اپنے قبضے میں لے لیا۔ بعد ازیں آٹھویں صدی عیسوی میں مسلمانوں کی فتوحات کے بعد یہ شہر قرطبہ کی اُموی خلافت کا دارالحکومت بن گیا۔
اِن مسلم ادوار کے دوران قرطبہ تعلیم و تحقیق کے ایک ایسے عالمی مرکز کی حیثیت اختیار کرگیا، جس نے ابن رشد، ابن حزم، اور الزھراوی جیسی شخصیات پیدا کیں اور 10ویں صدی عیسوی تک یہ شہر یورپ کا دوسرا سب سے بڑا شہر بن گیا۔ 1236 عیسوی میں عیسائیوں کی فتح کے بعد یہ سلطنتِ کیسل کا حصہ بن گیا۔ قرطبہ موریشس فن تعمیر کا شاہکار ہے، جس کی ایک مثال عظیم قرطبہ جامع مسجد ہے، جسے 1984 میں یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کیا گیا اور اب یہ ایک گرجا ہے۔ اس کے بعد سے یونیسکو کی حیثیت کو وسعت دیتے ہوئے اندلس (موجودہ سپین) کے تمام تاریخی شہر قرطبہ، مدینۃ الزہرا اور فیسٹیول ڈی لاس پالیٹوس کو بھی عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کیا گیا۔
قرطبہ اسپین اور یورپ میں سب سے زیادہ درجہ حرارت کا حامل ہے، جہاں جولائی اور اگست میں اوسط درجہ حرارت 37 ڈگری سینٹی گریڈ (99 ڈگری فارن ہائیٹ) کے قریب ہوتا ہے۔ قرطبہ میں دنیا کی کسی بھی جگہ سے زیادہ عالمی ثقافتی ورثے کے مقامات ہیں۔ اس کے فن تعمیر کا زیادہ تر حصہ، جیسے کہ الکازر اور رومن برج، کو شہر کے مستقل باشندوں نے دوبارہ تعمیر کیا ہے۔
قرطبہ کی عظیم مسجد، جسے سرکاری طور پر اس کے کلیسائی نام سے جانا جاتا ہے، ہسپانوی علاقے اندلس میں واقع ہے۔ ایک سابق اسلامی مسجد کی حیثیت کی وجہ سے اسے میزکیٹا اور قرطبہ کی عظیم مسجد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ عبدالرحمن اول الداخل نے 8 ویں دی عیسوی کے اواخر (786 عیسوی) میں مسجدِ قرطبہ اُس وقت تعمیر کروائی جب قرطبہ مسلمانوں کے زیر تسلط الاندلس کا دارالحکومت تھا۔ یہ مسجد وادی الکبیر میں دریا کے پل پر تعمیر کی گئی۔ عبدالرحمن اول الداخل نے مسجد کی جگہ پر پہلے سے موجود گرجا گھر کو بھاری قیمت کے عوض عیسائیوں سے باقاعدہ خرید کر اس عظیم مسجد کی بنیاد رکھی۔ یہ شاندار مسجد صرف دو سال کی قلیل مدت میں تیار ہوئی اور اس کی تعمیر پر 80 ہزار دینار خرچ ہوئے۔
بعد ازیں 10ویں صدی عیسوی تک ہر آنے والے مسلم حکمران نے مسجدِ قرطبہ کی تزئین و آرائش اور اس کی توسیع کے کام میں اپنا حصہ ڈالا۔ مسجد کی چوڑائی 150 میٹر اور لمبائی تقریباً 220 میٹر تھی۔ مسجد میں 1400 سے زائد ستون تھے۔ مسجد کی چھت 30 فٹ بلند تھی، جس سے ہوا اور روشنی کا بہتر نکاس ممکن ہوا۔ مسجد کے تمام در و دیوار اور فرش کو خوبصورت پتھروں سے مزین کیا گیا تھا، جبکہ چھت نقش و نگار اور مختلف چوبی بوٹیوں سے آراستی تھی۔ خاص دالان کے دروازہ پر سونے کا کام کیا گیا تھا۔
اندلس میں مسلم حکمرانی کے سنہرے دور کی یادگار یہ عظیم مسجد اُس وقت عیسائی راہبوں کے تسلط میں آگئی جب 1236 عیسوی میں اندلس میں مسلم دورِ حکمرانی کا خاتمہ ہوا۔ 10 سال بعد، یعنی 1246 عیسوی میں اِسے گرجا گھر میں تبدیل کر دیا گیا۔ 15 ویں صدی عیسوی میں مسجد کے وسط میں ایک کیتھولک گِرجا قائم کردیا گیا جہاں صرف عیسائیوں کو عبادت کی اجازت ہے۔ مسلمانوں کی عظیم یادگار مسجدِ قرطبہ میں آج بھی اذان دینے اور نماز پڑھنے پر مکمل پابندی عائد ہے۔ 1931 میں شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ وہ پہلے فرد تھے جنہوں نے آٹھ سو سال بعد قرطبہ کی جامع مسجد میں پابندی کے باوجود اذان دی، نماز ادا کی اور "مسجدِ قرطبہ" کے عنوان سے ایک خوبصورت نظم بھی لکھی۔ سال 2014 میں اسپین کی حکومت نے محض 30 یورو کے عوض اس تاریخی مسجد کو کلیسا کے ہاتھ فروخت کرکے چرچ کی ملکیت قرار دے دیا۔
اپنی کشتیاں جلادو" یہ تاریخی الفاظ طارق بن زیاد نے 711 عیسوی میں سمندر کے راستے اسپین میں داخل ہونے کے بعد اپنی مختصر سی فوج سے خطاب کرتے ہوئے کہے۔ دشمن فوج کا ایک بہت بڑا لشکر اُن پر حملہ آور ہونے کے لیے تیار کھڑا تھا، اس کے باوجود طارق بن زیاد کی افواج نے فوری طور پر اس حکم کی تعمیل کی۔ اللہ پر کامل یقین اور جذبہ جہاد و شوقِ شہادت جیسے جذبوں سے سرشار، اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر پختہ عزم کیساتھ طارق بن زیاد نے اپنی فوج میں جوشِ خطابت کے ذریعے ایک نئی روح پھونک دی۔ اُس نے کہا: "میرے پیارے بھائیو، ہم یہاں اللہ کا پیغام پھیلانے کے لیے آئے ہیں۔ اب دشمن تمہارے سامنے اور سمندر پیچھے ہے۔ تم ایک مقصد کے لیے لڑنے آئے ہو۔ یا تو تم فتح یاب ہو نگے یا شہادت کے عظیم رُتبے پر فائز، کوئی تیسرا انتخاب نہیں ہے۔ فرار ہونے کے تمام ذرائع تباہ ہو چکے ہیں‘‘، اس نے جنگ شروع ہونے سے پہلے اپنی افواج سے پُرجوش لہجے میں خطاب کرتے ہوئے کہا۔ بہادری کے ساتھ ساتھ تقویٰ کی بنیاد پر اسلام کی فتح قریب تھی۔ طارق بن زیاد الجزائر کے بربر قبیلے سے تعلق رکھنے والا ایک نومسلم تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ایک آزاد کردہ غلام تھا۔ اسلام نے غلاموں کو بھی اعلیٰ مقام عطا کیا۔ سلمان فارسی، بلال بن رباح اور زید بن حارثہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں آزاد ہونے سے پہلے غلام تھے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (جوکہ فارس (ایران) سے تعلق رکھتے تھے) کو مدائن کا گورنر مقرر کیا گیا تھا۔ حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی خوبصورت آواز کی وجہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ جنگہ موتہ میں حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلامی فوج کی قیادت کی۔ بعد کے ادوار میں بھی مملوک (غلاموں) نے مصر پر حکومت کی اور قطب الدین ایبک نے ہندوستان میں اپنا خاندان آباد کیا اور صدیوں تک حکومت کی۔ طارق بن زیاد کا تعلق شمالی افریقہ کے اششدف بربر قبیلے سے تھا۔ وہ غالباً 50 ہجری میں پیدا ہوئے۔ تاہم مؤرخ ابن زہری کہتے ہیں کہ ان کا تعلق الھاسا قبیلہ سے تھا۔ ابن خلدون نے لکھا ہے کہ الھاسا قبیلہ الجزائر کے شہر تلمسن میں دریائے تفنہ کے دونوں کناروں پر آباد تھا۔ طارق بن زیاد کو آیبیریا کی تاریخ کے اہم ترین فوجی کمانڈروں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے خواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جو فرما رہے تھے: ’’ہمت کرو اے طارق! اور جو آپ کی قسمت میں ہے اسے پورا کرو۔" پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو اندلس میں داخل ہوتے دیکھا۔ طارق ایک مسکراہٹ کے ساتھ بیدار ہوا، اور اس لمحے کے بعد اس نے کبھی اپنی جیت پر شک نہیں کیا۔ اس نے 711 عیسوی میں مراکش سے ایک چھوٹی سی فوج کی قیادت کی اور اُس اونچی چٹان پر اترا جسے اسپین میں "جبل الطارق" (جبرالٹر) کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ طارق کی فوج، جوکہ 300 عربوں اور 10 ہزار بربروں پر مشتمل تھی، جبرالٹر پر اُتری۔ سپین کے بادشاہ روڈرک نے مسلمانوں کے خلاف ایک لاکھ جنگجوؤں کی فوج جمع کی۔ طارق نے کمک طلب کی اور طارق بن مالک نقی (جنہیں ہسپانوی طائفہ کے نام سے پکارا کرتے تھے) کی کمان میں سات ہزار گُھڑ سواروں کا اضافی دستہ حاصل کیا۔ جب طارق بن زیاد نے اپنے سامنے موجود بڑے دشمن کے مقابلہ میں مسلمانوں کی صفوں کو قدرے گھبراہٹ کا شکار پایا تو اس نے جہازوں کو جلانے کا حکم دیا اور پھر مجاہدین سے تاریخی اور ہلچل مچا دینے والا خطاب کیا۔ دونوں فوجیں گواڈیلیٹ کے میدان جنگ میں آمنے سامنے ہوئیں جہاں 28 رمضان سن 92 ہجری کو بادشاہ روڈرک کو تاریخی شکست ہوئی اور اُسے قتل کر دیا گیا۔ شکست خوردہ ہسپانوی فوج ٹولیڈو کی طرف پیچھے ہٹ گئی۔ طارق بن زیاد نے فوری تعاقب کے لیے اپنی فوجوں کو چار رجمنٹوں میں تقسیم کیا۔ ایک رجمنٹ قرطبہ کی طرف بڑھی اور اسے زیر کر لیا۔ دوسرے نے مرسیا پر قبضہ کر لیا اور تیسرا ساراگوسا کی طرف بڑھا۔ طارق خود تیزی سے ٹولیڈو کی طرف بڑھا۔ شہر نے بغیر کسی مزاحمت کے ہتھیار ڈال دیے۔ اسپین میں بادشاہ روڈرک کی حکومت ختم ہو گئی۔ عظیم فتح کی خبر سن کر کمانڈر موسیٰ بن نصیر 18 ہزار کی ایک اور بڑی فوج کے ساتھ اسپین کی طرف روانہ ہوا۔ دونوں جرنیلوں نے جزیرہ نما آئبیرین کے دو تہائی سے زیادہ حصے پر قبضہ کر لیا، تیزی سے یکے بعد دیگرے ساراگوسا، بارسلونا اور پرتگال مسلم فوج کے سامنے سرنگوں ہوتے چلے گئے۔ بعد میں پیرینی کو عبور کر لیا گیا اور فرانس میں لیونز پر قبضہ کر لیا گیا۔ ہسپانیہ (سپین) 711 عیسوی سے 1492 عیسوی تک 750 سال سے زائد عرصے تک مسلمانوں کے زیر تسلط رہا۔ اپنے فیصلوں پر تیزرفتاری سے عمل درآمد اور فتوحات و کامیابیوں کے تسلسل کیساتھ طارق بن زیاد کی ہسپانیہ کی مہم جوئی قرون وسطیٰ کی فوجی تاریخوں میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ مسلم حکمرانی مقامی باشندوں کے لیے ایک بڑا اعزاز تھا۔ کوئی جائیداد یا دولت ضبط نہیں کی گئی۔ اس کے برعکس مسلمانوں نے ٹیکس کا ایک مربوط نظام متعارف کرایا، جس سے جلد ہی جزیرہ نما میں خوشحالی آئی اور یہ خطہ مغربی ممالک کی فہرست میں ایک ماڈل ملک بن کر اُبھرا۔ عیسائیوں کے اندرونی جھگڑے طے کرنے کے لیے الگ منصف تھے۔ تمام برادریوں، مذہبی اقلیتوں کو عوامی خدمات کے کاموں میں شمولیت کے یکساں مواقع حاصل تھے۔ اسپین میں یہودیوں اور کسانوں نے مسلم فوجوں کا کھلے عام استقبال کیا۔ جو غلامی رائج تھی اسے ختم کر دیا گیا اور منصفانہ اجرت کا نظام قائم کیا گیا۔ ٹیکسوں کو پیداوار کے پانچویں حصے تک کم کر دیا گیا۔ جس نے بھی اسلام قبول کیا اس نے غلامی سے نجات پائی۔ ہسپانویوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنے آقاؤں کے ظلم سے بچنے کے لیے اسلام قبول کیا۔ مذہبی اقلیتوں، یہودیوں اور عیسائیوں کو ریاست کا تحفظ حاصل تھا اور انہیں حکومت کی اعلیٰ ترین سطحوں پر شرکت کی اجازت تھی۔ مسلمانوں کی حکومت کے نتیجے میں اسپین یورپ کے لیے فنون، سائنس اور ثقافت کا مینار بن گیا۔ مسجدیں، محلات، باغات، ہسپتال اور لائبریریاں بنائی گئیں۔ پہلے سے موجود نہریں مرمت کی گئیں اور نئی نہریں کھودی گئیں۔ مسلم سلطنت کے دیگر حصوں سے نئی فصلیں متعارف کرائی گئیں اور زرعی پیداوار میں اضافہ ہوا۔ اندلس (یعنی اسپین) اہلِ مغرب کا غلہ مرکز بن گیا۔ مینوفیکچرنگ (پیداواری شعبہ) کی حوصلہ افزائی کی گئی اور جزیرہ نما کا ریشم اور بروکیڈ کام دنیا کے تجارتی مراکز میں مشہور ہوا۔ شہروں کے حجم میں اضافہ ہوا اور ترقی ہوئی۔ دارالحکومت قرطبہ یورپ کا سب سے بڑا شہر بن گیا اور 10ویں صدی عیسوی تک اس کی آبادی 10 لاکھ سے زیادہ تھی۔ ایک عیسائی مؤرخ لکھتا ہے: "مورس (مسلمانوں) نے قرطبہ کی اس شاندار سلطنت کو منظم کیا جو قرون وسطیٰ کا عجوبہ تھا اور جس نے، جب پورا یورپ وحشیانہ جہالت اور جھگڑوں میں ڈوبا ہوا تھا، اکیلے ہی علم اور تہذیب کی مشعل کو روشن رکھا ہوا تھا۔ اور (وہ) مغربی دنیا کے سامنے چمک رہے تھے۔"
نوجوان اور سخت دل مسلمان جنرل طارق بن زیاد اپنے عرب سپاہیوں کے ساتھ اسپین کے ساحل پر اُترا تو اس نے ان جہازوں کو جلانے کا حکم دیا جن میں وہ بحیرہ روم سے گزرے تھے تاکہ پیچھے ہٹنے کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔ حکم صادر ہونے کے بعد اس نے اپنی فوجوں کو ان یادگار الفاظ میں مخاطب کیا:
"اب کوئی فرار نہیں ہے۔ سمندر تمہارے پیچھے ہے اور دشمن سامنے ہے۔ قسم خدا کی! آپ کے پاس اپنی ہمت اور حوصلہ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔”
مسلمانوں نے قرطبہ کو 711 یا 712 عیسوی میں فتح کیا تھا۔ دیگر آئیبیرین قصبوں کے برعکس کسی بھی قسم کے معاہدہ تسلط پر دستخط نہیں کیے گئے تھے اور یہ علاقہ ایک طوفانی یلغار کے ذریعے فتح کیا گیا۔ نتیجتاً قرطبہ بھی پر براہ راست عربوں کی حکومت قائم ہوگئی۔ نئے اُموی کمانڈروں نے شہر کے اندر مختلف ذمہ داریاں سنبھال لیں اور 716 میں یہ شہر سیویل کی جگہ لے کر دمشق کی خلافت کے ماتحت صوبائی دارالحکومت بن گیا۔ عربی میں اسے قرطبة (قرطبہ) کہا جاتا تھا۔ رومن اور ویزگوتھک شہروں کا مرکز – قرطبہ – دیواروں والا مدینہ بن گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ شہر کے ارد گرد 21 مضافات (رَبَض رباڈ، pl. أَرْبَاض اربع) تیار ہوئے۔
747 عیسوی میں قرطبہ کے گردونواح میں ساقندا کے نام سے مشہور ایک جنگ ہوئی، جس میں عرب یمنیوں کو شمالی قیس کے خلاف کھڑا کیا گیا۔ عبدالرحمٰن اول چھ سال کی جلاوطنی کے بعد 756 میں اُس وقت قرطبہ کا امیر بنا جب اُمویوں نے دمشق میں خلیفہ کا عہدہ 750 عیسوی میں عباسیوں کے ہاتھوں کھو دیا تھا۔ امارت دوبارہ حاصل کرنے کے لیے اُس نے یہاں کے موجودہ حکمران کو شکست اور مختلف خودمختار علاقوں کو ایک امارت کے تحت منظم کیا۔ مزید حملوں کے ذریعے عبدالرحمن اول نے اپنی اس امارت کو وسعت دی۔ اس طرح وہ 806 عیسوی میں کورسیکا تک فتوحات حاصل کرنے والا پہلا حکمران بنا۔ مؤرخین نے سپین میں آٹھ سو سالہ مسلم دورِ حکمرانی کو "سنہری دور” سے تعبیر کیا ہے۔
10ویں صدی عیسوی کے دوران ہسپانیہ نے خلافتِ اسلامیہ کے تحت بہت زیادہ خوشحالی حاصل کی۔ عبدالرحمٰن سوم نے اندلس کو متحد کیا اور شمال کی عیسائی سلطنتوں کو طاقت اور سفارت کاری کے ذریعے اپنے کنٹرول میں لایا۔ عبدالرحمٰن سوم نے بیرونی حملوں کو روکنے کے لیے مراکش اور الاندلس میں فاطمیوں کی پیش قدمی روک دی۔ فاطمی حملے کا منصوبہ اس وقت ناکام ہوا جب عبدالرحمٰن سوم نے 927 میں میلیلا، 931 میں سیوٹا اور 951 میں تانگیر کو فتح کیا۔ 948 میں ادریس کے امیر ابو العیش احمد نے خلافت کو تسلیم کیا، حالانکہ اس نے انہیں قبضہ کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ امویوں نے 949 میں تانگیر کا محاصرہ کیا اور ابوالعیش کو شکست دے کر اسے پسپائی پر مجبور کیا۔ اس کے بعد امویوں نے شمالی مراکش کے باقی حصوں پر قبضہ کر لیا۔ اگرچہ مراکش پر ایک اور فاطمی حملہ 958 میں ان کے جنرل جوہر کے ماتحت ہوا۔ الحسن ثانی کو فاطمیوں کو پہچاننا پڑا۔ امویوں نے 973 میں اپنے جنرل غالب کے ساتھ ادریسید مراکش پر حملہ کر کے جواب دیا۔ 974 تک الحسن ثانی کو قرطبہ لے جایا گیا اور باقی ماندہ ادریسیوں نے اموی حکومت کو تسلیم کر لیا۔ خوشحالی کا یہ دور شمالی افریقہ میں بربر قبائل، شمال سے عیسائی بادشاہوں اور فرانس، جرمنی اور قسطنطنیہ کے ساتھ بڑھتے ہوئے سفارتی تعلقات کے ذریعے سے جانا جاتا ہے۔ عبدالرحمٰن سوم کے دور حکومت میں خلافت بہت منافع بخش بن گئی، جس نے سرکاری آمدنی کو عبدالرحمٰن ثانی سے 62 لاکھ 45 ہزار دینار تک بڑھا دیا۔ اس دوران ہونے والے منافع کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا: فوج کی تنخواہوں اور دیکھ بھال کی ادائیگی، سرکاری عمارتوں کی حفاظت اور خلیفہ کی ضروریات۔ عبد الرحمٰن سوم کی موت کے بعد 961 عیسوی میں اس کے 46 سالہ بیٹے الحکم ثانی کا دور شروع ہوا۔ الحکم کا اپنے مشیروں پر انحصار اپنے والد سے زیادہ تھا۔ عبدالرحمٰن سوم کے دور میں پچھلی خوشحالی نے الحکم ثانی کو خلافت خود چلانے کی اجازت دی۔ حکمرانی کا یہ انداز الحکم ثانی کے لیے موزوں تھا، کیونکہ وہ خلافت کی حکمرانی سے زیادہ اپنے علمی اور فکری مشاغل میں دلچسپی رکھتے تھے۔ الحکم ثانی کے تحت خلافت اپنے فکری اور علمی عروج پر تھی۔
المنصور نے الحکم اور اس کے پیشروؤں کی طرف سے شروع کی گئی فوجی اصلاحات کو کامیابی سے جاری رکھا، جس میں بہت سے پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا تھا۔ ایک طرف اس نے باقاعدہ فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیت میں اضافہ کیا، جو کہ دارالحکومت میں اپنی فوجی طاقت کو قائم رکھنے اور اپنی متعدد مہمات کے لیے افواج کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری تھا، جو کہ اس کی سیاسی قانونی حیثیت کا ایک ذریعہ تھا۔ اس پالیسی نے لیویز اور دیگر غیر پیشہ ور فوجیوں پر انحصار کم کردیا، جسے اس نے پیشہ ورانہ دستوں کی مدد کے لیے استعمال ہونے والے ٹیکسوں سے بدل دیا، جنہیں اکثر صقالیب یا مغربیوں کے نام سے جانا جاتا تھا، جنہوں نے الاندلس کے مقامی باشندوں کو فوجی خدمات سے آزاد کیا۔ ثقالیب اور بربر کی بھرتی کوئی نئی بات نہیں تھی، لیکن المنصور نے اس میں توسیع کی۔ دوسری طرف اس نے خلافت کی باقاعدہ فوج کے برعکس نئے یونٹ بنائے، جو بنیادی طور پر اُس کے وفادار تھے اور دارالحکومت کو کنٹرول کرنے کا کام سرانجام دیتے تھے۔ امیر عبدالرحمٰن اوّل نے پہلے ہی چالیس ہزار کی مستقل فوج کے لیے بربر اور ثقالیب کا استعمال ان تنازعات کو ختم کرنے کے لیے کرچکے تھے جو اُس وقت تک امارت میں پھیلے ہوئے تھے۔ امیر محمد اوّل کے زمانے میں فوج پینتیس سے چالیس ہزار جنگجوؤں تک پہنچ گئی، جن میں سے نصف شامی فوجی دستے تھے۔ مسیحی تاریخ دانوں کے مطابق کرائے کے فوجیوں اور غلاموں کی اس بڑے پیمانے پر بھرتی کا مطلب یہ تھا کہ "عام طور پر سارسن فوجوں کی تعداد 30، 40، 50، یا 60 ہزار ہُوا کرتی تھی، یہاں تک کہ سنگین مواقع پر یہ تعداد 100، 160، 300 اور سے لیکر چھ لاکھ جنگجوؤں تک بھی پہنچ جاتی تھی۔” درحقیقت، یہ استدلال کیا گیا ہے کہ المنصور کے زمانے میں کورڈووان کی فوجیں چھ لاکھ مزدور اور "سلطنت کے تمام صوبوں سے نکالے گئے” دو لاکھ گھوڑوں پر مشتمل ہوتی تھیں۔
المنصور کے دستے
اپنے اقتدار کے لیے ممکنہ خطرے کو ختم کرنے اور عسکری کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے المنصور نے قبائلی اکائیوں کے نظام کو ختم کر دیا جو سرحدوں پر عربوں کی قلت اور ناقص جاگیرداری نظام کی وجہ سے زوال کا شکار تھا، جس میں شامل ہر ایک قبیلہ کا اپنا الگ کمانڈر ہوا کرتا تھا، جس کی وجہ سے اُن کی آپس میں مسلسل جھڑپیں ہوا کرتی تھیں۔ المنصور نے اِن قبائلی اکائیوں کو انتظامیہ کے اہلکاروں کے واضح وفاداری کے احکامات کے بغیر مخلوط یونٹوں سے تبدیل کردیا۔ تاہم، نئی فوج کا مرکز مغربی بربر افواج کے ذریعے تیزی سے تشکیل پاتا گیا۔ اندلس کی فوج کے اندر عربوں، بربروں اور سلاووں کے درمیان نسلی دشمنیوں کو المنصور نے اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے مہارت سے استعمال کیا۔ مثال کے طور پر یہ حکم دے کر کہ فوج کی ہر یونٹ متنوع نسلی گروہوں پر مشتمل ہو تاکہ وہ اس کے خلاف متحد نہ ہوں۔ اسی طرح ممکنہ حریفوں کے ظہور کو روکا۔ تاہم ایک بار جب ان کی مرکزی حیثیت ختم ہو گئی تو یہ اکائیاں 11ویں صدی کی اُن خانہ جنگی کی ایک اہم وجہ بنی جسے فتنۃ الاندلس کہا جاتا ہے۔ بربر افواج میں اچھا معاوضہ لینے والے عیسائی کرائے کے دستے بھی شامل تھے، جو المنصور کے ذاتی محافظوں کے ایک بڑے حصہ پر مشتمل تھے اور عیسائی علاقوں میں اس کی مہمات میں حصہ لیا کرتے تھے۔ المنصور کی ان اصلاحات کی تکمیل، جو اس کے پیشروؤں نے شروع کی تھی، نے بنیادی طور پر آبادی کو دو غیر مساوی گروہوں میں تقسیم کر دیا: (1) بڑی تعداد میں شہری ٹیکس دہندگان اور (2) عام طور پر جزیرہ نما سے باہر کا ایک چھوٹا پیشہ ور فوجی۔
جدید تاریخ کے مطابق ان کرائے کے دستوں نے عبدالرحمٰن سوم کے زمانے میں خلیفہ کی فوج کی کل تعداد کو 30 یا 50 ہزار سے بڑھا کر 50 یا 90 ہزار تک کرنا ممکن بنایا۔ دوسرے، جیسے ایواریسٹ لیوی پروونسل دلیل دیتے ہیں، یہ کہ المنصور کے ساتھ میدان میں موجود قرطبہ کی فوجیں 35 ہزار سے 70 یا 75 ہزار کے درمیان تھیں۔ عصری اعداد و شمار متضاد ہیں: کچھ اکاؤنٹس کا دعویٰ ہے کہ ان کی فوجوں میں دو لاکھ گھڑ سوار اور چھ لاکھ پیدل سپاہی تھے، جب کہ دیگر 12 ہزار گھڑ سوار، 3 ہزار سوار بربر اور 2 ہزار سوڈانی، افریقی ہلکی پیادہ فوج کے بارے میں بتاتے ہیں۔ تواریخ کے مطابق اس مہم میں جس نے استورگا اور لیون کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، المنصور نے 12 ہزار افریقی اور 5 ہزار اندلسی گھڑ سواروں اور 40 ہزار پیادہ فوج کی قیادت کی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنی آخری مہمات میں 46 ہزار گھڑ سواروں کو متحرک کیا، جبکہ 6 سو نے ٹرین کی حفاظت کی، 26 ہزار پیادہ، 2 سو اسکاؤٹس یا ’پولیس‘ اور ایک سو تیس ڈرمر۔ یا یہ کہ قرطبہ کی فوج 10 ہزار 5 سو گھڑ سواروں پر مشتمل تھی اور بہت سے دوسروں نے شمالی سرحد کو منتشر دستوں میں رکھا۔ تاہم اس بات کا بہت زیادہ اہتمام کیا جاتا تھا کہ حتیٰ کہ کسی قائد کی سب سے زیادہ پُرجوش مہمات میں بھی اُس کی فوجیوں کی تعداد بیس ہزار افراد سے متجاوز نہ ہو۔ یہ استدلال کیا جا سکتا ہے کہ گیارہویں صدی عیسوی تک کسی مہم پر کوئی بھی مسلمان فوج تیس ہزار سے زیادہ نہیں تھی، جب کہ آٹھویں صدی عیسوی کے دوران پائیرینیا پار مہمات میں دس ہزار آدمی تھے اور جزیرہ نما کے شمال میں عیسائیوں کے خلاف کی جانے والی مہمات میں یہ تعداد اِس سے بھی کم تھی۔
امیر الحکم اول کے زمانے میں تمام سلاوی (سلوواکی) غلاموں پر مشتمل 3 ہزار سواروں اور 2 ہزار پیادہ فوج کا ایک پیلیٹائن گارڈ تیار کیا گیا تھا۔ دو قسم کی فوجوں کے درمیان یہ تناسب المنصور کی اصلاحات تک برقرار رہا۔ شمالی افریقی گھڑ سواروں کے بڑے پیمانے پر شمولیت نے پیادہ فوج کو محاصروں اور قلعوں کی چوکیوں میں بھیج دیا۔ اِن اصلاحات کے نتیجے میں تمام قبائل، خاص طور پر بربر سواروں کو جزیرہ نما میں منتقل کیا گیا۔
اس دوران فوجی صنعت قرطبہ کے ارد گرد فیکٹریوں میں پروان چڑھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں ماہانہ ایک ہزار کمانیں اور بیس ہزار تیر، اور تیرہ سو ڈھالیں اور تین ہزار مہمات کا ذخیرہ سالانہ تیار کیا جاسکتا تھا۔
جہاں تک بحری بیڑے کا تعلق ہے، اس کے بندرگاہوں کے نیٹ ورک کو بحر اوقیانوس، Alcácer do Sal، میں ایک نئے اڈے کے ساتھ تقویت ملی، جس نے کوئمبرا کے علاقے کی حفاظت کی، جو 980 عیسوی کی دہائی میں دریافت ہوئی، اور اس نے سینٹیاگو کے خلاف مہم میں حصہ لینے والی یونٹس کی بنیاد کا کام کیا۔ بحیرہ روم کے ساحل پر بحری دفاعی مرکز الماریہ (جو اب المیریا کہلاتا ہے) کے اڈے پر تھا۔ بحری بیڑے کا ڈاک یارڈ ٹورٹوسا میں 944 عیسوی میں تعمیر کیا گیا تھا۔
ابتدائی طور پر خلافت کے سمندری دفاع کی قیادت عبدالرحمٰن بن محمد بن رومہیس نے کی تھی، جو ایک تجربہ کار ایڈمرل تھا اور جس نے الحکم ثانی کی خدمت کی تھی اور وہ ایلویرا اور پیچینا کا قاضی بھی تھا۔ اس نے 971 عیسوی کے وسط میں اندلس کے مغرب میں الماگس (بت پرستوں) یا اردومانیون (‘شمال کے مرد’، وائکنگز) کے چھاپوں کو پسپا کیا۔ اسی سال کے آخر میں جب اُس نے الاندلس پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو ایڈمرل نے المیریا چھوڑ دیا اور انہیں الگروے کے ساحل سے شکست دی۔ اپریل 973 عیسوی میں اس نے مغرب کے باغی قبائل کو زیر کرنے اور اس علاقے میں فاطمی عزائم کو ختم کرنے کے لیے الجیسیرس سے غالب کی فوج کو منتقل کیا۔ جیسا کہ 997 میں الاندلس کا بحری بیڑا گالیشیائی ساحل سے ٹکرایا، 985 میں اس نے کاتالانوں کو تباہ کر دیا تھا۔ کاتالان مہم کے دوران ایمپوریاس کے نواب گاسفریڈ اول اور روسیلون نے مقامی لوگوں کی مدد کے لیے فوج جمع کرنے کی کوشش کی لیکن پھر بربر قزاقوں کے کئی بحری دستے ان کے ساحلوں کے لیے خطرات کا باعث بنے رہے، اور انہیں اپنی زمینوں کے دفاع تک محدود رہنے پر مجبور کیا۔
چونکہ قدیم الاندلس کے معززین مواصلات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے تھے اس لیے زمینی نقل و حمل کے راستے مضبوط قلعوں سے بنے ہوئے تھے۔ سوڈان میں پیغام رساں خریدے جاتے تھے اور انہیں المنصور کے پیغامات اور اُن سرکاری رپورٹس کی ترسیل تک رسائی حاصل کرنے کے لیے خصوصی تربیت دی جاتی تھی جو اس کی وزارت خارجہ نے سالانہ مہمات کے بارے میں لکھی تھیں۔
المنصور کے دورِ خلافت میں ریاست امیر اور طاقتور تھی۔ کولمیرو کے مطابق یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ صنعتی دور سے پہلے کے معاشرے میں ہر ملین باشندوں میں سے 10 ہزار فوجیوں کو جمع کیا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ تواریخ میں حقیقی تعداد کو مبالغہ آرائی کی حد تک 10 گنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے – یعنی آٹھ لاکھ سپاہیوں کی بات کی گئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ خلافت کے پاس آٹھ ملین باشندے ہو سکتے تھے۔ جو لوگ زیادہ قابلِ اعتماد معلومات پر اکتفا کرتے ہیں ان کا تخمینہ سات سے دس ملین کے درمیان ہے، لیکن آبادی شاید بہت کم تھی۔ روایتی طور پرسن 1000 عیسوی کے قریب خلافت نے چار لاکھ مربع کلومیٹر پر قبضہ کیا اور تیس ملین نفوس کی آبادی اس کے زیر نگیں تھی. اس کے مقابلے میں آئیبیرین عیسائی ریاستیں ایک لاکھ ساٹھ ہزار مربع کلومیٹر اور نصف ملین افراد پر مشتمل تھیں۔ دسویں صدی عیسوی تک امویوں کے دور میں 75 فیصد آبادی اسلام قبول کرچکی تھی۔ دو صدیوں بعد یہ تعداد 80 فیصد تک پہنچ گئی۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوں کے حملے کے وقت اسپین میں تقریباً چالیس لاکھ باشندے تھے، حالانکہ ایسے مؤرخین کی کمی نہیں جو اس تخمینے کو بڑھا کر سات یا آٹھ ملین تک بتاتے ہیں۔
مسلمانوں کے زیرِ نگیں علاقوں میں قرطبہ جیسے بڑے شہر بھی تھے، جہاں ایک لاکھ افراد سے زیادہ آبادی تھی۔ ٹولیڈو، المیریا اور غرناطہ جس کی آبادی تقریباً تیس ہزار نفوس پر مشتمل تھی، اور زاراگوزا، ویلنسیا اور مالاگا سبھی پندرہ ہزار سے اوپر کی آبادی والے۔ یہ جزیرہ نما کے شمال میں عیسائیوں کے بالکل مدمقابل علاقہ تھا، جہاں بڑے شہری مراکز کی کمی تھی۔
قرطبہ الاندلس کا ثقافتی اور فکری مرکز تھا، جس میں قدیم یونانی متون کے عربی، لاطینی اور عبرانی تراجم کیے گئے تھے۔ الحکم ثانی کے دور میں شاہی کتب خانے میں ایک اندازے کے مطابق چار لاکھ سے پانچ لاکھ جلدیں تھیں۔ اس کا موازنہ سوئٹزرلینڈ میں ایبی آف سینٹ گال سے کیا جائے تو وہاں صرف 100 جلدیں تھیں۔ دورِ خلافت میں سائنس، تاریخ، جغرافیہ، فلسفہ اور زبان میں ترقی ہوئی۔ اندلس کی خوشحالی اور خلیفہ کی سرپرستی نے مسافروں، سفارت کاروں اور مفکرین/علماء کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ انہوں نے 9ویں صدی عیسوی میں مشرقی اسلامی دنیا سے فنون، موسیقی اور ادب کے نئے انداز متعارف کراکر زریاب جیسی شخصیات کی میراث کو جاری رکھا۔ قرطبہ بھی اپنے طور پر ثقافت اور اعلیٰ معاشرتی اقدار کا مرکز بن گیا۔ شاعروں نے اس کے دربار کی سرپرستی کی۔ مثلاً ابن دراج القسطالی، جس نے عبدالرحمن سوم، الحکم ثانی، اور المنصور کے لیے درباری شاعر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ دیگر شعراء میں یوسف الرمادی نے فطرت اور محبت پر تصانیف لکھیں۔ مواشہ (اندلس کی مقامی شاعری کی ایک شکل)، جس میں مقامی عربی اور مقامی رومانوی زبان کو ملایا گیا، اُس دور میں زیادہ مقبول ہوا۔ مصنفین نے الاندلس کے اموی خاندان کے لیے وقف کردہ تاریخیں بھی لکھنا شروع کیں، جیسے کہ احمد الرازی کی الاندلس کے حکمرانوں کی تاریخ۔ ان تاریخی کتب نے کرہ ارض اور اس کے باشندوں سے متعلق بھی معلومات فراہم کیں۔ الاندلس کی تاریخ سے متعلق بہت سے تصورات اور افسانے (بشمول 8ویں صدی میں مسلمانوں کی ابتدائی فتوحات سے متعلق داستانیں) اِسی دور کی یادگار ہیں۔
اشرافیہ کی خواتین کو بھی تعلیم حاصل کرنے اور شاعری حتٰی کہ مذہب کے شعبوں میں اعلیٰ ثقافتی شعبوں میں حصہ لینے کے وسائل میسر تھے۔ جیساکہ عائشہ بن احمد (ایک اعلیٰ گھرانے کی خاتون) اور لبنیٰ (الحکم ثانی کی غلامی کی خدمت پر مامور خاتون)۔ ایک اور خاتون فاطمہ بنت یحیٰی المغامی ایک معروف فقیہہ (اسلامی قانون اور فقہ کی ماہر) تھیں، حالانکہ مذہبی شعبوں میں تاحال مردوں کا غلبہ تھا۔
خلیفہ کی سرکاری کارخانوں (جیسے کہ مدینۃ الزہرہ میں) عیش و آرام کی مصنوعات، عدالتی اُمور میں استعمال ہونے یا مہمانوں، اتحادیوں اور سفارت کاروں کے لیے تحفے کے طور پر تیار کی جانی والی مصنوعات تیار کی جاتی تھیں، جس سے فن پاروں کی حوصلہ افزائی ہوتی تھی۔ خلیفہ کی ان کارخانوں میں تیار کردہ بہت سی اشیاء بعد میں یورپ کے عجائب گھروں اور عیسائی گرجا گھروں کی زینت بنیں۔ اس دور کی سب سے مشہور اشیاء میں ہاتھی دانت کے بنے صندوق ہیں جنہیں پھول کاریوں، تصویروں اور ایپی گرافک نقش و نگار سے کندہ کیا گیا تھا۔ ان میں سے باقی بچ جانے والی قابل ذکر اشیا میں المغیرہ کی صندوقچی، ضمورہ کی صندوقچی، The Leyre Casket شامل ہیں۔ خلیفہ کے کارخانوں نے عمدہ ریشم بھی تیار کیے جن میں ٹیراز ٹیکسٹائل، سیرامکس اور چمڑے کا کام شامل ہے۔ دھاتی کام کی چیزیں بھی تیار کی گئیں، جن میں سے سب سے مشہور بچ جانے والا ٹکڑا نام نہاد "قرطبہ ہرن” ہے، جو ایک کانسی کا چشمہ ہے جسے ہرن کی شکل میں کندہ کیا گیا تھا، اور جسے مدینۃ الزہرہ میں بنایا گیا تھا اور قرطبہ کے آثار قدیمہ کے میوزیم نے محفوظ کیا تھا۔ اسی طرح کی دستکاری کی دو دیگر کانسی کی مثالیں، جن کی شکل ہرنوں کی طرح ہے، میڈرڈ کے نیشنل آرکیالوجیکل میوزیم اور دوحہ کے اسلامک آرٹ میوزیم میں رکھی گئی ہیں۔ اگرچہ خلافت کے خاتمے کے بعد ہاتھی دانت اور ریشم کی اشیاء کی پیداوار بڑی حد تک رک گئی تھی، لیکن بعد کے ادوار میں چمڑے اور سرامک جیسے دیگر اشیا سے مصنوعات تیار کی جاتی رہیں۔
المغیرہ کی صندوقچی
قرطبہ کا ہرن – مدینۃ الزہرہ (10ویں صدی)-
بعض عمارتوں میں سنگ مرمر کو تراش کر آرائش کی گئی تھیں، جیسے کہ دیواروں کے کناروں اور کھڑکیوں کی گرلز وغیرہ کو۔ سنگ مرمر کی کاریگری کی سب سے نمایاں کاموں میں سے ایک دارالحکومتوں میں کیے گئے کام تھے، جس میں رومن کورنتھیا کے دارالحکومتوں کی عمومی ترتیب کو جاری رکھا گیا لیکن دورِ خلافت سے وابستہ ایک مخصوص انداز میں اٹوریک اور اسلامی کشیدہ کاری کے ساتھ گہرائی سے تراشے گئے نمونے شامل تھے۔ یہ دارالحکومتیں بعد میں قیمتی مالِ غنیمت کے مراکز بن گئیں اور الموراوڈس اور الموحاد کے ادوار میں بعد ازیں تعمیر ہونے والی عمارات میں ان کے آثار دیکھے جاسکتے ہیں۔ ایک اور قابل ذکر مثال سنگ مرمر کا بیسن ہے، جسے اب مراکش کے دار سی سعید میوزیم میں رکھا گیا ہے، جسے 1002 عیسوی اور 1007 عیسوی کے درمیان مدینۃ الزہرہ میں وضو کے بیسن کے طور پر کام کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا اور اسے مراکش بھیجے جانے اور نئی عمارتوں میں دوبارہ استعمال سے پہلے المنصور کے بیٹے عبدالمالک کے لیے وقف کیا گیا تھا۔
کیا جاتا ہے۔ مدینۃ الزہرہ میں ہاتھی دانت کی ایک کھدی ہوئی تابوت بھی بنائی گئی تھی۔
دورِ خلافت کی معیشت متنوع اور کامیاب تھی جس میں تجارت کا غلبہ تھا۔ مسلم تجارتی راستے بحیرہ روم کے راستے الندلس کو بیرونی دنیا سے جوڑتے تھے۔ خلافت کے دوران جو صنعتیں بحال ہوئیں ان میں ٹیکسٹائل، سیرامکس، شیشے کا سامان، دھاتی کام اور زراعت شامل تھیں۔ عربوں نے چاول، تربوز، کیلا، بینگن اور سخت گندم جیسی فصلیں متعارف کروائیں۔ کھیتوں کو پانی کے پہیوں سے سیراب کیا جاتا تھا۔ خلافت کے سب سے بڑے تاجر یہودی تھے۔ یہودی تاجروں کے پاس تجارت کا وسیع نیٹ ورک تھا جو بحیرہ روم کے طول و عرض تک پھیلا ہوا تھا۔ چونکہ اس وقت کوئی بین الاقوامی بینکنگ سسٹم موجود نہیں تھا، اس لیے ادائیگیوں کا انحصار اعلیٰ سطح پر ہوتا تھا، اور اعتماد کی اس سطح کو صرف ذاتی یا خاندانی بندھنوں، جیسے شادی کے ذریعے مضبوط کیا جا سکتا تھا۔ اندلس، قاہرہ اور لیونٹ کے یہودی تمام سرحد پار سے شادی شدہ تھے۔ لہذا دورِ خلافت میں یہودی تاجروں کے بیرون ملک ہم منصب تھے جو ان کے ساتھ تجارت کرنے پر آمادہ تھے۔
قرطبہ کی عظیم جامع مسجد کا بیرونی حصہ
11ویں صدی عیسوی کے دوران الاندلس میں مذہب:
• اسلام (80 فیصد)
• عیسائیت (15 فیصد)
• یہودیت (5 فیصد)
نسلی، ثقافتی اور مذہبی اعتبار سے سے اندلس میں خلافت کے تحت متنوع معاشرہ قائم تھا۔ عربی النسل مسلمانوں کی اقلیت مذہبی معاملات اور حکمرانی کے عہدوں پر فائز تھی۔ دوسری مسلم اقلیتیں بنیادی طور پر سپاہیوں اور مولادی نومسلموں کی تھیں، جو پورے معاشرے میں پائے جاتے تھے۔ کل آبادی کے تقریباً 10 فیصد یہودی تھے (عربوں سے کچھ زیادہ اور تعداد میں بربروں کے برابر)۔ یہودی بنیادی طور پر کاروباری اور علمی پیشوں سے وابستہ تھے۔ مسیحی اقلیت (مزاراب) جو بڑے پیمانے پر وزیگوتھک رسم کا دعویٰ کرتی ہے۔ موزاراب معاشرے کے نچلے طبقے میں سے تھے، جنہیں بہت زیادہ ٹیکس ادائیگیوں کیساتھ کچھ شہری حقوق حاصل تھے اور وہ ثقافتی طور پر مسلمانوں سے متاثر تھے۔ نسلی عرب سماجی درجہ بندی میں سرفہرست تھے۔ مسلمانوں کی سماجی حیثیت یہودیوں کے مقابلے میں بلند تھی، جوکہ عیسائیوں سے زیادہ سماجی حیثیت کے حامل تھے۔ عیسائیوں اور یہودیوں کو ذمی سمجھا جاتا تھا، جن کو جزیہ ادا کرنا پڑتا تھا۔
قرطبہ کی نصف آبادی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ 10ویں صدی تک مسلمان ہو چکے تھے، 11ویں صدی تک یہ تعداد 70 فیصد تک بڑھ گئی۔ اس کی وجہ بقیہ جزیرہ نما آئبیرین اور شمالی افریقہ سے مسلمانوں کی ہجرت کے مقابلے میں مقامی تبدیلی کی وجہ سے کمی تھی۔ عیسائیوں نے ویزیگوتھس کے دور حکومت میں اپنی حیثیت کو گرتا ہوا دیکھا، اسی دوران دورِ خلافت میں یہودیوں کی حالت میں بہتری آئی۔ اس دوران جب یہودیوں کو ویزیگوتھس کے تحت ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جارہا تھا، یہودی برادریوں نے زیادہ آزادی، دولت اور اعلیٰ سماجی مقام حاصل کرکے اموی حکومت سے فائدہ اٹھایا۔
تھامس گلِک کے مطابق، "750 کی دہائی کی خشک سالی اور قحط کے دوران کافی تعداد میں واپسی کے باوجود، شمالی افریقہ سے تازہ بربر نقل مکانی اندلس کی تاریخ کی ایک مستقل خصوصیت تھی، جوکہ دسویں صدی عیسوی میں تیز رفتاری کیساتھ بڑھ رہی تھی۔ ہسپانوی-رومن جنہوں نے اسلام قبول کیا، جن کی تعداد چھ یا سات ملین تھی، اکثریتی آبادی تھی اور سماجی سیڑھی کے سب سے نچلے پاٹ پر قابض تھے۔ یہ بھی اندازہ لگایا گیا ہے کہ دارالحکومت میں تقریباً 4 لاکھ 50 ہزار افراد رہائش پذیر تھے، جو اُس وقت یورپ کا دوسرا بڑا شہر تھا۔
976 عیسوی میں الحکم ثانی کی وفات کے ساتھ اندلس میں خلافتِ اسلامیہ کے خاتمے کا آغاز ہوا۔ اپنی وفات سے پہلے الحکم نے اپنے اکلوتے بیٹے ہشام ثانی کو جانشین نامزد کیا۔ اگرچہ 10 سالہ ہشام خلیفہ بننے کی ابھی اہلیت نہیں رکھتا تھا، المنصور ابن ابی عامر (الحکم کے اعلیٰ مشیر، جنہیں المنصور کے نام سے بھی جانا جاتا ہے)، جس نے ہشام ثانی کی اطاعت کا حلف اٹھایا ہوا تھا، نے اُس کی خلافت کا اعلان کردیا۔ 996 عیسوی میں المنصور نے مراکش پر حملہ آور ہونے کے لیے فوج بھیجی۔ تین ماہ کی جدوجہد کے بعد اس کی افواج تانگیر کی طرف پسپائی اختیار کر گئیں۔ المنصور نے پھر اپنے بیٹے عبد المالک کے ماتحت ایک طاقتور کمک بھیجی۔ تانگیر کے قریب دونوں افواج میں جھڑپ ہوئی۔ اموی 13 اکتوبر 998 عیسوی کو شہر کے دروازے کھولنے کے بعد Fes میں داخل ہوگئے۔ المنصور کا ہشام دوم کی ماں اور نائبِ ریاست سبھ پر بہت اثر تھا۔ المنصور نے سبھ کے ساتھ مل کر قرطبہ میں ہشام کو الگ تھلگ کرکے اس کی اپنی حکمرانی کی مخالفت کو منظم طریقے سے ختم اور افریقہ سے بربروں کو ان کی حمایت میں اضافہ کرنے کے لیے الاندلس کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دی۔ جب ہشام ثانی خلیفہ تھے، وہ محض ایک برائے نام حاکم تھے۔ وہ خود، اس کے بیٹے عبد المالک (المظفر، اس کی وفات کے بعد 1008 عیسوی) اور اس کے بھائی (عبدالرحمٰن) نے خلیفہ ہشام کے پاس برائے نام اقتدار حاصل کرلیا۔ تاہم عیسائی شمال پر چھاپے کے دوران قرطبہ سے بغاوت ہوئی اور عبدالرحمٰن کبھی واپس نہیں آئے۔
خلیفہ کا لقب طاقت اور اثر کے بغیر علامتی بن گیا۔ 1009 عیسوی میں عبدالرحمن سانچوئیلو کی موت سے "فتنۃ الاندلس” کا آغاز ہوا، جب حریفوں میں سے خلافت کے نئے دعویدار سامنے آئے، جس سے خلافت کو ختم کرنے والی پُرتشدد خانہ جنگیوں کا آغاز ہوگیا اور حمود خاندان کے وقفے وقفے سے حملے ہوئے۔ دھڑے بندی کی وجہ سے خلافتِ اسلامیہ 1031 عیسوی میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر متعدد آزاد طوائف الملوکیوں میں بٹ گئی، جن میں قرطبہ ملوکیت، سیویل کی ملوکیت اور زاراگوزا کی ملوکیت شامل تھیں۔ قرطبہ کا آخری خلیفہ ہشام سوم (1027-1031 عیسوی) تھا۔
سلاطین و خلفاء اُندلس | |
اُموی اُمرائے قرطبہ | |
نام | دورِ حکمرانی |
عبدالرحمن اول الداخل | 756 – 788 |
ہشام اول | 788 – 796 |
الحکم اول | 796 – 822 |
عبدالرحمن ثانی | 822 – 852 |
محمد اول
| 852 – 886 |
المنذر |
|
عبداللہ بن محمد | 888 – 912 |
عبدالرحمٰن ثالث | 912 – 929 |
اُموی خلفائے قرطبہ | |
عبدالرحمٰن ثالث (بطور خلیفہ) | 929 – 961 |
ہشام ثانی | 976 – 1008 1008 – 1009 |
سلیمان | 1009 – 1010 1010 – 1012 |
سلیمان (دوبارہ) | 1012 – 1017 |
عبد الرحمٰن الرابع | 1021 – 1022 |
عبدالرحمن الخامس | 1022 – 1023 |
محمد الثالث | 1023 – 1024 |
ہشام الثالث | 1027 – 1031 |
مسجدِ قرطبہ اقبالؒ کی نظر میں
اسپین میں مسلمانوں کے زوال کے بعد 1246 عیسوی کے قریب مسجدِ قرطبہ کو گرجا میں تبدیل کر دیا گیا اور اس پر ایک دیو ہیکل ناف تعمیر کر دیا گیا۔ اقبالؒ نے مسجد کو کیتھیڈرل میں تبدیل ہونے کے طویل عرصہ (1100 سال) بعد اس کا دورہ کیا۔ اُن کی خوش قسمتی کہ انہیں مسجد میں نماز ادا کرنے کی اجازت ملی، کیونکہ ہسپانوی حکام نے یہاں نماز پڑھنے پر سخت پابندی عائد کررکھی تھی۔
علامہ محمد اقبالؒ نے اپنی وفات سے 5 سال قبل 1933 میں اسپین (بالخصوص قرطبہ) میں لکھی گئی اپنی مشہور نظم "مسجدِ قرطبہ” میں مسجد قرطبہ کو یوں بیان کیا ہے ؎
اے حرمِ قرطبہ عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود
مسجد قرطہ کے مشہور ستونوں، محرابوں اور گنبد کی تعریف میں علامہ اقبالؒ یوں رقم طراز ہیں۔ ؎
تیری بناء پائیدار، تیرے ستون بے شمار
شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجومِ نخیل
اقبالؒ کے نزدیک مسجد قرطبہ محض فنِ تعمیر کا شاہکار ہی نہیں، بلکہ اندلس میں مسلمانوں کے سنہرے دور کی عظیم یادگار تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی مشہور نظم "مسجدِ قرطبہ” کے ذریعے اس عظیم یادگار کو اس کے معماروں کے اسلام کیساتھ عشق جیسی وابستگی سے تعبیر کرکے اس کی خوبصورتی کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ ؎
تیرا جلال و جمال مردِ خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل و جمیل، تو بھی جلیل و جمیل
میں نے مسجد کے بارے میں جتنا زیادہ پڑھا، اتنی ہی زیادہ معلومات مجھے اس کے فن تعمیر اور تاریخ کے بارے میں ملی - حقیقت میں اتنی معلومات کہ میں نے محسوس کیا کہ اقبال کے نزدیک مسجد کا کیا مطلب تھا۔
میں جانتا تھا کہ اقبال کے لیے فن تعمیر کی کامیابی کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ آخر ہندوستان میں تاج محل تھا جو بہت سے شاعروں کے لیے مسحور کن ہونے کے باوجود ان کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہا۔
The Ghazi, these mysterious bondsmen Of Thine,
To whom Thou hast granted zest for Divinity.
Deserts and oceans fold up at their kick,
And mountains shrink into mustard seeds.
Indifferent to the riches of the world it makes,
What a curious thing is the joy of love?
Martyrdom is the desired end of the Momin,
Not spoils of war, kingdom and rule!
For long has tulip in the garden been waiting,
It needs a robe dipped in Arab blood.
Thou made the desert dwellers absolutely unique,
In thought, in perception, in the morning Adhan;
What, for centuries, life had been seeking,
It found the warmth in the hears of these men;
Death is the opener of the heart’s door,
It’s not the journey’s end in their sight.
Revive, once again, in the heart of the Momin,
The lightning that was in the prayer of ‘Leave Not’.
Wake up ambition in the breasts, O’ Lord!
Transform, the glance of the Momin into a sword.
قطرۂ خُونِ جگر، سِل کو بناتا ہے دل
خُونِ جگر سے صدا سوز و سُرور و سرود
تیری فضا دل فروز، میری نوا سینہ سوز
تجھ سے دِلوں کا حضور، مجھ سے دِلوں کی کشود
عرشِ معلّیٰ سے کم سینۂ آدم نہیں
گرچہ کفِ خاک کی حد ہے سِپہرِ کبُود
پیکرِ نُوری کو ہے سجدہ میّسر تو کیا
اس کو میّسر نہیں سوز و گدازِ سجود
کافرِ ہندی ہُوں مَیں، دیکھ مرا ذوق و شوق
دل میں صلٰوۃ و دُرود، لب پہ صلوٰۃ و دُرود
شوق مری لَے میں ہے، شوق مری نَے میں ہے
نغمۂ ’اللہھوٗ‘ میرے رَگ و پَے میں ہے
Oh shrine of Cordova, thou owes; existence to love.
Deathless in all its being, stranger to Past and Present.
Color or brick and stone, speech or music or song,
Only the heart’s warm blood feeds the craftsman/s design;
One drop of heart’s blood lends marble a heating heart,
Out of the heart’s blood flow out warmth, music and mirth.
Thine the soul-quickening air, mine the soul-quickening verse,
From thee the pervasion of men’s hearts, from me the opening of men’s hearts.
Inferior to the Heaven of Heavens, by no means the human breast is,
Handful of dust though it be, hemmed in the azure sky.
What if prostration be the lot of the heavenly host?
Warmth and depth of prostration they do not ever feel.
I’ a heathen of Ind, behold my fervour and my ardour,
Salat! And Durood fill my soul, Salat ad Darood are on my lips!
Fervently sounds my voice, ardently sounds my lute,
Allah Hu, like a song, thrilling through every vein!
الحمرا ایک محل اور قلعہ کا کمپلیکس ہے جو غرناطہ، اندلس، اسپین میں واقع ہے۔ یہ اصل میں قدیم رومی قلعوں کی باقیات پر 889 عیسوی میں ایک چھوٹے سے قلعے کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا، اور پھر بڑی حد تک اس وقت تک نظر انداز کیا گیا جب تک کہ اس کے کھنڈرات کو 13ویں صدی کے وسط میں سلطنت کے عرب نصری امیر محمد بن الاحمر نے دوبارہ تعمیر نہیں کیا۔۔
الحمرا کے اسلامی محلات کا آخری چوٹی اسپین کے آخری مسلم امیروں کے لیے نصری خاندان کے زوال کے دوران تعمیر کیا گیا تھا۔
ہیڈ آفس، قرطبہ سٹی
آر 5 روڈ، بلاک کے قرطبہ سٹی، راولپنڈی
92-51-4969001-4+ ،92-51-4969012+
لاہور آفس
منصورہ ملتان روڈ لاہور
92-42-35252122+
Copyrights 2022© Qurtaba City